زخمی دل کے پہلو میں ہر زخم سنبھالا کرتے ہیں
آستین کے سانپوں کو اس طرز مٰیں پالا کرتے ہیں
آیا جایا کرتے ہیں ممنوع گلی میں پے در پے
تیری خاطر زندگی کو خطروں میں ڈالا کرتے ہیں
روز تو کھڑا کرتا ہے ہمرازوں کے آگے مجھ کو
دیکھنے والے ڈھیروں مجھ میں نقص نکالا کرتے ہیں
کھل اٹھتے ہیں تیری اک مسکان پہ پھول ہزاروں
میرے آنسو میرے غم کو اور دوبالا کرتے ہیں
نصیب کے ان اندھیروں کو کرن تک نصیب نہ ہوئ
غیر کے سرے محل میں وہ سر شام اجالا کرتے ہیں
دل کو نا منظور ہے شاکر پھر بھی ان کا رسوا ہونا
بے شک میری پگڑی وہ شب و روز اچھالا کرتے ہیں