کچھ ایسے زخم جو چھپائے نہیں جاتے
یہ بوجھ مقدر کے اٹھائے نہیں جاتے
سننے کو تو بے تاب ہے یہ سارا زمانہ
افسانے محبت کے سنائے نہیں جاتے
کچھ دیر کے لیے آیا تھا اب جا بھی چکا ہے
یادوں کے مگر دیپ بجھائے نہیں جاتے
آداب شاہد عشق کے آتے نہیں مجھے
روٹھے ہیں وہ اس طرح کے منائے نہیں جاتے
بیکار نہ متلاشی بنو راہوں کے سعادت
اجڑے ہوئے گھر پھر بسائے نہیں جاتے