صبح چمن میں جانا میرا اور فضا میں بکھر جانا
شاخ گل کے ساتھ لچکنا صبا کے ساتھ گزر جانا
سحر بھری دو آنکھیں میرا پیچھا کرتی رہتی ہیں
ناگن کا وہ مڑ کر دیکھنا پھر وادی میں اتر جانا
زخم ہی تیرا مقدر ہیں دل تجھ کو کون سنبھالے گا
اے میرے بچپن کے ساتھی میرے ساتھ ہی مر جانا
سورج کی ان آخری مدھم کرنوں کو گن سکتے ہیں
دن کا وہ موتی سا چمکنا پھر پانی میں اتر جانا
یہیں کہیں صحرا میں ٹھہر جا دم لینے کی بات نہیں
خاک سوا رکھا ہی کیا ہے یہاں سے اور کدھر جانا
اس سے اب دشت امکاں کے سفر حضر کا پوچھنا کیا
جس نے راہ گزر کے گھنے پیڑوں کو بھی درد سر جانا
ایک نہاں خانے کے طاق پر آئینہ رکھا تھا زیبؔ
ایک جھلک سی اپنی دیکھنا اور وہ میرا ڈر جانا