زرا آہستہ چَل عُمرِ رواں کچھ کام باقی ہے
گزاری سوچ کے غفلت میں شائد شام باقی ہے
دُکھایا دِل کسی کا ہُو تُو معافی مانگ لُوں اُس سے
چُکانا زندگی کا بھی ابھی تُو٬ دام٬ باقی ہے
زرا کہہ دے صبا جا کے سخی کے میکدے پہ تو
ابھی اک رنِد ءِ مستانہ بھی تشنہ کام باقی ہے
خُدا کے ہو گئے جو لوگ کہلائے خُدا ‘‘ والے “
کروڑوں دِل میں رہتے ہیں زماں میں نام باقی ہے
شِکستہ دِل خُدا کو ہیں پسند اے وارثی عشرت
خُدا سے رکھ تو اُمیدِ پیہَم انعام باقی ہے