زمین کی آنکھ
جانے کون خواب کی اسیرہے
اسے بھلاخبرکہاں
ترے مرے وجودکی
ہرایک سو،بسے ہوئے جمودکی
تراذراسالمس،
دل کے کینوس پہ دیرتک
جہان نو کی وسعتیں اجالتاچلاگیا
ہم اپنی اپنی ذات میں
جہان درجہاں کھلے
لہوکی بوندبوند تک
زمین کے خواب میں گھلے
ترے لبوںکے شہدکی حلاوتیں
جوقطرہ قطرہ
پیاس کی نسویں تیرتی رہیں
نہ جانے کون سیپیوںمیں بھرگئیں
سمندرنے آسماں سے
بارش کی بات کی
اورکہا،
”تیرے پیالے دودھ سے
بھرے رہیں“
مگریہاں،تیرے مرے وجودمیں
نہ جانے کتنی کائناتیں
ہچکیاںلئے بناہی مرگئیں
زمین نے کچھ نہیں سنا
زمین نے کچھ نہیں کہا
زمین کی آنکھ
چاہے کون خواب کی اسیرہے
ترے مرے وجودپر کھلانہیں
مسافران روزوشب کا
جس جگہ پڑاؤ ہے
لہودھمال کھیلنے کاچاؤ ہے
کوئی بدن،
بدن نہیں ہے،گھاؤ ہے
ترے مرے وجودمیں صداؤں کا
الاؤ ہے
کوئی صدا،
جوچارسوجمودتوڑدے
زمین کوگہری نیندسے جگاسکے
اوراسکے خواب میں
ہمارے خواب کوملاسکے