زمیں پر چاند اترا آسمانوں سے
تجھے میں سوچتا ہوں ان حوالوں سے
نہ جانے کب بہا لے جائیں عالم کو
مجھے لگتا ہے ڈر اب تیری آنکھوں سے
ستمگر ہیں تری آنکھیں زمانے میں
بھٹکتے ہیں مسافر ان چراغوں سے
یہ دل بسمل ترے گھر چھوڑ آیا ہوں
کہ ملنا ہے کئی ایسے بہانوں سے
چلو کچھ ہم نیا کرتے ہیں الفت میں
پرانے سب ہوئے قصے زمانوں سے
محبت میں تماشے کی ضرورت کیا؟
کریں الفت چھپا کے ہم زبانوں سے
کتابوں سے نہیں ملنا یہاں کچھ بھی
بنا لے زندگی تو بھی حوالوں سے
نہیں آنا کبھی تم چاندنی شب میں
مجھے لگتا ہے ڈر اپنے ارادوں سے
غریبوں کی اگر آنکھوں میں دیکھو گے
الجھ جائو گے جانے کن سوالوں سے