زندگی اوروں کی خاطر جو نہیں مر جائیے
گر سفر بیکار ہو تو لوٹ کے گھر جائیے
راحت جاں کا سبب ہوساری دنیا کے لیے
کام ایسا موت سے پہلے کوئی کر جائیے
وصل کی گھڑیوں میں چہرے سے عیاں ہے کشمکش
کوئی الجھن ہے تو پھر اے میرے دلبر جائیے
سلطنت فقر کو گر جاننے کا شوق ہو
تو فقیروں سے ملاقاتوں کو اکثر جائیے
نت نئے فتووں سے مولانا ہویئ ہے خیر بھی؟
ان سے تو بس پھیلتا ہے اور بھی شر ،،جائیے
مل سکا نہ دل کی بے چینی کو اک لمحہ قرار
آزمائے در سبھی اب “ اس “ کے در پر جائیے
ہر طرف پھیلا ہوا ہے گرچہ دہشت کا ماحول
جب خدا پر ہے بھروسہ کس لیے ڈر جائیے
آج ہے اور کل نہیں ہو گی ہمارے واسطے
ایسی دنیا کے لیے زاہد کیوں مر مر جائیے