زندگی اک درد و غم کا ساز ہے
موت جس کی آخری آواز ہے
واں تو آئینہ ہے مشق ناز ہے
منتشر یاں زندگی کا ساز ہے
دل ہمارا درد سے خالی نہ کر
یہ ہماری زندگی کا راز ہے
آج پھر برسیں گے نغمے بزم میں
آج پھر ہاتھوں پہ اس کے ساز ہے
ہر نشانہ دل پہ لگتا ہے مرے
کون کہنہ مشق تیر انداز ہے
سن رہا ہوں دل سے نغموں کی صدا
دوست سے ملتی ہوئی آواز ہے
نغمہ باز اک زندگی کا ساز ہے
دہر کا ہر ذرہ ہم آواز ہے
جل رہا ہے جسم کا خاکی قفس
طائر جاں مائل پرواز ہے
ختم کر عالیؔ فسانہ ختم کر
سننے والا محو خواب ناز ہے