زندگی بھی عجیب رستہ ہے
ہر کوئی چین کو ترستا ہے
کوہساروں سے کیسے ٹکراؤں
حوصلے کا وجود خستہ ہے
جس کی خاطر ہوا ہوں میں رسوا
وہ بھی آواز مجھ پہ کستا ہے
یہ میرا شہر ہے یا مقتل ہے
آب مہنگا ہے لہو سستا ہے
قابل داد شخص ہے وہ بھی
درد سہتا ہے پھر بھی ہنستا ہے
ساعت ہجر کیا کہوں واثق
آنکھ پر نم ہے دل شکستہ ہے