زندگی تجھ سے ہمیں اب کوئی شکوہ ہی نہیں
اب تو وہ حال ہے جینے کی تمنا ہی نہیں
انتہا عشق کی ہے آئنۂ دل پہ مرے
ماسوا اس کے کوئی عکس ابھرتا ہی نہیں
میرے افکار کو دیتی ہے جلا اس کی جفا
غم نہ ہوتے تو یہ قرطاس سنورتا ہی نہیں
مجھ کو حق بات کے کہنے میں تأمل کیوں ہو
میں وہ دیوانہ ہوں جو دار سے ڈرتا ہی نہیں
ہم کہ خوابوں سے بہل جاتے تھے لیکن افسوس
جاگتی آنکھوں سے تو خواب کا رشتہ ہی نہیں
میں کہ سورج ہو ادھر ڈوبا ادھر ابھروں گا
میں وہ تیراک نہیں ہوں جو ابھرتا ہی نہیں
وقت کے ساتھ بدلنے لگا ہر اک شفیقؔ
جیسے اب مجھ سے کسی کا کوئی رشتہ ہی نہیں