زندگی زرد نہیں کالی نہیں لال نہیں۔
بندگی جس قد ر چاھی تھی تاحال نہیں۔
میرے ناکردہ گناھوں کی سزا پائی میں نے۔
اب کے سرزد ھوا کوئی گناہ ملال نہیں۔
تم سے پوچھوں یہ بتا اے دلِ بے حیات۔
افسانا خون سے لکھتا ھوں کچھ خیال نہیں۔
بے قدری فرض اپنے پے انہوں نے کر لی ھے۔
پیوستہ تیر کئ سینے میں ھم نڈھال نہیں۔
ھم تیرے رُخساروں پے جو لمسے وفا رکھیں۔
برجستہ رُخِ گلاب نا ھو رُخِ جمال نہیں۔
ابھی تو درد میں بھی دل نے دھڑکنا سیکھا۔
محبت ھی سزاوار میرا کچھ کمال نہیں۔
دیوانے مرد ھوا کریں حُبِ نسواں میں۔
سیفی نا ھوئے یوں بدلی کہیں چال نہیں۔