زندگی ستاتی ہے
کس قدر تھکاتی ہے
اب بھی آس کی دل میں
شمع ٹمٹماتی ہے
ہجر کے تسلسل سے
آنکھ جھلملاتی ہے
آرزو کی نادانی
خون تو رلاتی ہے
برف کے حوالوں سے
تیز دھوپ آتی ہے
اِس طرح تو انساں کی
رُوح ڈوب جاتی ہے
زندگی بہر صورت
زندگی سے آتی ہے
موسموں کی تبدیلی
رنگ تو دکھاتی ہے
جستجو مگر انور
زندگی بناتی ہے