زندگی ہر پل بدلتی ہے اس کا بھروسہ کیا کرنا
جس میں وفا نہیں، اُس سے توقع وفا کیا کرنا
سوچتے ہیں ہم نہ ہونگے تو دنیا تھم جائے گی
ہمارے بغیر یہ دنیا بیچاری کدھر جائے گی
کچھ سوچا بھی ہے، کیا ہوا ہمارے آباؤ اجداد کا
دھرتی میں گزری ہوئی عظیم ہستیوں کے اعداد کا
وہ نہ رہے، سب گمنام ہوئے، کچھ نے نام بھی پایا
ہم کس باغ کی مولی، کون کبھی موت سے بچ پایا
زندگی کا بھروسہ نہیں، آج ہی کچھ کر جانا چاہئے
رب کی عطا ہے تو اُسکی مخلوق کے کام آنا چاہئے