زندگی کا مقصد تو بس چلتے رہنے میں ہے
جسے ڈھونڈتے ہیں وہ کہیں راستے میں ہے
مشکل راستوں پر رواں دواں ہیں کب سے
شاید ہمسفر ہمارا دور کہیں قافلوں میں ہے
ہر ٹھیس میں چھپی ہیں لزتیں مسافتوں کی
آرام شاید کسی سایہ دار شجر میں ہے
ایسا نہیں کہ اسے بھلا دیں یا چھور دیں
اسے پانے کی جستجو تو رگ و جاں میں ہے
صدیوں کی نہیں لمحوں کی بات باقی ہے
منزل تو بس اب ہمارے دو چار قدموں پر ہے