زندگی کا ہر لمحہ جسے سوچتے ہوئے گزرا ہے
آج غیروں کی طرح وہ دیکھتے ہوئے گزرا ہے
وہ جو سببِ درد ہے اور مداوا بھی ہے میرا
میری وحشتیں دیکھ کر ہنستے ہوئے گزرا ہے
غم ِہجر، سر ِدہلیز، چشم ِبراہ ہو جیسے
وصل ِنایاب کا لمحہ لمحہ ڈرتے ہوئے گزرا ہے
جا رہا ہوں گلشن خزاں کی تحویل میں دے کر
باد ِبہار کا جونکا یہ کہتے ہوئے گزرا ہے
وہ جو گرداب سے برسر ِپیکار تھا کب سے
ابھی لہروں کے دوش پہ بہتے ہوئے گزرا ہے