زندگی ہے عذاب کی صورت
جلائے ہر غم تیزاب کی صورت
وہ حقیقت میں ہم کومل نہ سکا
جو روز ملتا ہے خواب کی صورت
کانٹوں بھری ہے زندگی آگے
اور پیچھے بچپن گلاب کی صورت
یہ پیار ہے جو کم نہیں ہوتا
آنکھوں سے جاری ہے آب کی صورت
ہم سے مانگے وہ حساب چاہت کا
برپا یوم حساب کی صورت
اس کی پنہائی کے بھی چرچے ہیں
خوشبوئے گلاب کی صورت
اچھے لوگ اب اس دنیا سے
گزر رہے ہیں سیلاب کی صورت
اپنے مقدر میں دربدری کاشی
ماھی بےآب کی صورت