زندگی جب بھی تری راہ گذر سے گزری
میری ہر سانس قیامت کے سفر سے گزری
تو نے ہنس ہنس کے اڑایا ہے مرے فن کا مذاق
جب بھی تخلیق مری تیری نظر سے گزری
کتنی افسردہ و شرمندہ نظر آ تی تھی
شب کی دُلہن جو ابھی بابِ سحر سے گزری
سب کو اوڑھا کے گئی سرد اُداسی کا کفن
موت اِک بار یہاں جس کے بھی گھر سے گزری
فائدہ کچھ بھی نہ تھا آپ کو سمجھانے کا
میں نے جو بات کہی آپ کے سر سے گذری
میں نے تخلیق کیۓ کتنے حسیں شہ پارے
جب کبھی سوچ مِری شمس و قمر سے گذری
اس کا ثانی نہ ہوا کوئی زمانے بھر میں
جو بھی صناعی ترے دستِ ہنر سے گذری
کیا کہوں آپ کا اِس دِل میں ہے کیسا رُتبہ
سر جھکاۓ میں سدا آپ کے در سے گذری
ڈوبتے ڈوبتے سو بار بچی مشکل سے
دل کی کشتی جو کبھی غم کے بھنور سے گذری
کیا کہوں میں نے اٹھائی ہے مصیبت کتنی
تب کہیں جا کے دعا میری اثر سے گذری