میرے آنگن کی ہری بیلوں کو اچانک کیا ہوا
نہ وہ رونق نہ ہریالی ہے
نہ وہ بہتے ہوئے پانی کی روانی ہے
چھائی ہر سو اداس شام سی تنہائی ہے
یوں ہے لگتا جیسے سارے شہر کی غمگینی امڈ آئی ہے
کہیں ہیں خون کی بہتی ہوئی نہریں
کہیں ہیں افلاس کی بے باق سی لہریں
مسجد ہے ویران آباد مے خانے
حوس ہے چار سو بھرے ہر حکمراں کے خزانے
یہ تیری ہو یا میری ہو سبھی سے کہہ سنانی ہے
یہی ہے زندگی اپنی یہی اپنی کہانی ہے