زندگی اس طرح سفر میں ہے
جیسے کشتی کوئی بھنور میں ہے
جسم ملبوس کسی ریشم میں
روح کانٹوں کے رہگزر میں ہے
ہونٹوں پہ مجلسی تبسم ہے
دل انجانے کسی ڈر میں ہے
علم پیتا ہے پانی چشموں کا
آگہی زہر کے اثر میں ہے
سانس خوشبو کی بات کرتی ہے
درد سینے کےبام و در میں ہے
خاک صحرا بدوش ہے لیکن
ایک دریا میری نظر میں ہے
طاق پر ہیں محبتوں کے چراغ
شام نفرت کسی کہر میں ہے
کچھ بھی اپنی خبر نہیں سدرہ
جانے یہ کون اس بشر میں ہے