زندہ ہیں مگر کتنے عذابوں سے جڑے ہیں
ہم لوگ حقیقت میں سرابوں سے جڑے ہیں
شاید وہ حقیقت میں فسانوں کی طرح تھے
تاریخ میں جو لوگ کتابوں سے جڑے ہیں
تحقیق میں نکلو گے تو پھر راز کھلیں گے
ہم لوگ بظاہر تو نصابوں سے جڑے ہیں
اک تُو کہ مری سوچ کا محور ہے ترے ساتھ
کتنے ہی سوالات جوابوں سے جڑے ہیں
ٹوٹیں گے ترے خواب کے منظر تو کھلے گا
کس درجہ حقائق ترے خوابوں سے جڑے ہیں
جانے کیوں وہم کی یہ ہوا میں بھی ہیں محفوظ
یہ گھر جو تری سوچ کے دھاگوں سے جڑے ہیں
چونک اُٹھیں گے اِک دھوپ کے صحرا میں عقیل اب
وہ لوگ جو غفلت کی شرابوں سے جڑے ہیں