زندگی کے جھمیلے میں
وقت کے تیز دھارے میں
انساں کس قدر بے بس ہے
وہ کر کچھ نہیں سکتا
بہت کچھ کر بھی سکتا ہے
تقدیر اس کو رلاتی ہے
تقدیر اپنی بناتا ہے
اچھا کرے تو کمال اس کا
برا کرے تو شیطاں بہلاتا ہے
روکے جس سے دوسروں کو
کہ ٹھیک نہیں ہے یہ سب کرنا
سب ٹھیک ہو ہی جاتا ہے
جب وہ خود یہ سب کرے تو
ہم حضرت انساں بھی
نہ جانے کیسے انساں ہیں
جو
کہتے ہیں وہ
کرتے نہیں
جو کرتے ہیں
وہ کہتے نہیں
تضاد اتنا
قول و فعل میں
ہوتا ہے کیوں؟
کبھی اکیلے میں
کسی نے سوچا ہے؟
کہ زوال اپنا
کیوں مقدر بنتا ہے؟
اگر سوچے تو
سمجھے گا یہ
جانے گا یہ
کہ یہ سب کچھ
نتیجہ ہے اپنے
قول و فعل میں تضاد کا
عروج کی ابتدا ہوگی
خاتمہ زوال کا ہوگا
اسی دن
جب ہمارے
قول و فعل میں
تضاد نہیں رہے گا