زیر کرنے کو مجھے پاس اُس کے تدبیریں بھی تھیں
اور میرے پاؤں میں لمحوں کی ز نجیریں بھی تھیں
کر رہا تھا جِس گھڑی وہ مجھ سے پیمانِ وفا
جیب میں اُس کی نیۓ چہروں کی تصویریں بھی تھیں
گِر رہی ہے جو عمارت آج میرے سامنے
اُس کے ماتھے پر لکھی کچھُ میری تحریریں بھی تھیں
زندگی میں یوں تو ہر جانب اندھیرا ہی مِلا
راہ دِکھلاتی رہیں جو ایسی تنو یریں بھی تھیں
مجھ پہ میرے ہی زیاں کا جرُم ثابت کر دیا
میرے ہمدردوں کے ہاتھوں میری تشہیریں بھی تھیں
اُٹھ رہا ہے جِن گھروں کی راکھ سے اب تک دھواں
اُن میں رفعتؔ میرے کچھ خوابوں کی تعبیریں بھی تھیں