یوں ہی انجام اپنا سوچنے لگتے ہیں
اس شخص پر واجد مہرباں ہوتے ہوئے
ساتھ قدم ہیں تیرے مگر دل نہیں
سنساں ہیں راہیں تیرے ہوتے ہوئے
دعویٰ ہے چارہ گری کا چار سو مگر
سخت بیمار ہیں ہم دوا کے ہوتے ہوئے
دل و جاں کو بس اس کا دیدار چاہیے
وہ نا مہرباں ہے مہرباں ہوتے ہوئے
دلِ مظلوم وفا کی فریاد کرتا ہے
بہرحال بے زبان ہوتے ہوئے
بوجھ خوش نوازی کا اٹھا رہے ہیں
سرکشوں کے ہاتھوں ناتواں ہوتے ہوئے