ساری دلوں میں ہیں غمِ پنہاں کی کاوشیں
جاری کشاکشِ غم دنیا ہے آج تک
ہم بیخودانِ عشق بہت شادماں سہی
لیکن دلوں میں درد سا اُٹھتا ہے آج تک
پورا بھی ہوکے جو کبھی پورا نہ ہوسکا
تیری نگاہ کا وہ تقاضا ہے آج تک
تُو نے کبھی کیا تھا جدائی کا تذکرہ
دل کو وہی لگا ہوا کھٹکا ہے آج تک
تاعمر یہ فراق بجا دل گرفتگی
پہلو میں کیا وہ درد بھی رکھا ہے آج تک؟