میرے چہرے پہ یہ جو ہیں نشاں سے
کبھی آنسو گرتے تھے یہاں سے
فقط تیری ذرا سی ایک ہاں سے
میرا سر جا لگا ہے آسماں سے
سبھی انسان پتھر ہو گئے ہیں
اب ان میں آئے گی دھڑکن کہاں سے
امیر کارواں ایسا ملا ہے
جو رستہ پوچھتا ہے کارواں سے
مجھے اب آگیا ہے عشق کرنا
میں لڑ سکتا ہوں سارے جہاں سے
پھر ان کی بھی کمی محسوس ہوگی
اٹھا مت خشک پتے گلستاں سے
ابھی سلطان میں ہے جان باقی
کہاں جائے گا تیرے آستاں سے