ساغر جو اُٹھا کے رکھ دیا ہے
محفل کو بُجھا کے رکھ دیا ہے
چہرے اب خود کو ڈھونڈتے ہیں
آئینہ چُھپا کے رکھ دیا ہے
آنکھوں کے ذرا سے سانحے نے
دُنیا کو ہِلا کے رکھ دیا ہے
کِس نے ایک جیتے جاگتے کو
آسیب بنا کے رکھ دیا ہے
یہ صُبح ہے، پُھول ہے کہ تُو ہے
کیا سامنے لا کے رکھ دیا ہے
ہم کیا تیری جستجو کریں گے
تُو نے تو مٹا کے رکھ دیا ہے
جس کے لیے سارے دُکھ سہے ہیں
دل اُس نے دُکھا کے رکھ دیا ہے
اُڑنے کی بھی آرزو بہت تھی
اُس نے بھی اُڑا کے رکھ دیا ہے
مٹی نے کیا قبول یعنی
مٹی میں ملا کے رکھ دیا ہے
دل خاک تھا یا دِیا تھا شہزاد
رَستے میں ہوا کے رکھ دیا تھا