سامنے رہ کر وہ میرے مجھ کو زخم ایسے دیتا ہے
جیسے اُس کو پیار کرنے کی وہ مجھ کو سزا دیتا ہے
جانے کتنی بار کہا ہم کو آج بھی تم سے پیار ہے
بدلوں گا نہ میں کبھی دل سے کرتا وہ اقرار ہے
ہم بھی کتنے نادان تھے جو یقین اُن کا کر لیا
کتنا پاک تھا پیار میرا وہ سارا اُنہی سے کر لیا
کیسے کہۂ دوں میں کچھ جو کبھی میرا ایمان تھا
بے گناہ ہے وہ شاہد اِن پاک رشتوں سے انجان تھا
کہنا نہیں چاہتے اُسے مگر حالات مجبور کر دیتے ہیں
نہ چاہ کر بھی وہ ہر پل ایک نیا زخم مجھ کو دیتا ہے
نہ سمجھ سکے وہ میرا پیار نہ سمجھ سکے میرا غم
خود کو جلا کر بھی ہم نے دینی چاہی اُس کو روشنی
کچھ بھی ہو اِس دل کو اُس سے پیار تو ہے مسعود
غم نہیں دوں گا خوشیاں اِس بات کا اقرار ہے