روز اول سے ہیں بیکار میں غم ساتھ مرے
تیرے ہونٹوں پہ کہاں پیار کے نغمات مرے
اب بھی زندہ ہوں تری حسرتِ دیدار لئے
مرے سینے میں سلگتے رہے جزبات مرے
تیرے بن گزری ہے یوں میری جوانی تنہا
سانپ بن کر مجھے ڈستے رہے حالات مرے
میں نے رکھے تھے کسی آنکھ میں کچھ راز یہاں
تب سے خوابیدہ ہیں ارمان، یہ دن رات مرے
جس کے کھلنے سے عیاں ہو گا مقدر اپنا
ایسی تقدیر پہ پہنچے ہی نہیں ہاتھ مرے
تیری خوشبو سے مہکتی ہیں گلابی کلیاں
تیری یادوں سے مہکتے ہیں یہ باغات مرے
مال و دولت نہ ہی عہدے کی ہے حسرت وشمہ
کام آئیں گے کسی روز کرامات مرے