ساکن عالم برباد نہیں سمجھیں گے
عرش کی باتیں زمیں زاد نہیں سمجھیں گے
ایک مدت سے قفس میں رہے پنچھی خود کو
ہو کے آزاد بھی آزاد نہیں سمجھیں گے
یہ زمیں ہے یہاں جنت نہیں بننے والی
بات یہ عصر کے شداد نہیں سمجھیں گے
مسکرانے کی اداکاری مجھے آتی ہے
مجھ کو گھر والے بھی ناشاد نہیں سمجھیں گے
ابرؔ دے دیں گے تجھے داد یہ سننے والے
اس غزل میں ہے جو فریاد نہیں سمجھیں گے