سب بھرم توڑے ہیں اُس نے اب گلہ کیسے کروں
یاد اُس کی اپنے دِل سے میں جدُا کیسے کروں
نہ وہ قادر ہے کِسی شے پر نہ ہے وہ لاذوال
پھر اُسے تسلیم میں اپنا خدُا کیسے کروں
میں نے اپنی ذات کی خاطر بناۓ کچھ اصوُل
دنیا والوں کے لیۓ اُن کو فنا کیسے کروں
عمرُ کی لمبی مسافت نے تھکا ڈالا مجھے
سامنے منزل ہے کم یہ فاصلہ کیسے کروں
تیرگی ہی تیرگی ہے چار سوُ اُتری ہویٔ
ایسی صوُرت میں معین راستہ کیسے کروں
بے زباں ہو کر کھڑی ہوں اپنے رب کے سامنے
سوچتی ہوں آج رفعتؔ اِبتدا کیسے کروں