سب سے بہتر ہے کہ مجھ پر مہرباں کوئی نہ ہو
ہم نشیں کوئی نہ ہو اور رازداں کوئی نہ ہو
مریے اس حسرت میں گر قاتل نہ ہاتھ آوے کہیں
روئیے اپنے پہ خود گر نوحہ خواں کوئی نہ ہو
بیچ میں ہے میرے اس کے تو ہی اے آہ حزیں
صلح کیوں کر ہووے جب تک درمیاں کوئی نہ ہو
شکوہ کس سے کیجیے خالق کی مرضی ہے یہی
نکتہ چیں پیدا ہوں لاکھوں نکتہ داں کوئی نہ ہو
مجھ تلک قاتل تو قاتل موت بھی آتی نہیں
کس کو دیجے جان جب خواہان جاں کوئی نہ ہو
مانے گر کوئی نصیحت عارفؔ دل خستہ کی
بھول کر بھی والۂ آتش بجاں کوئی نہ ہو