سب سے چھپ کے خود سے ملاقات کرتے ہیں
ہم شاعری نہیں بس اپنی بات کرتے ہے
آنکھوں میں اپنا عکس آئینے میں اپنا سراپا
خود کو تکتے تکتے دن سے رات کرتے ہیں
خود سے خطاب کرتے ہیں ہم خود کلام کرتے ہیں
ہم تو سو سو باتوں میں بھی اپنی بات کرتے ہیں
کسی اور سے کیا مطلب مجھے کسی سے کیا کہنا
اپنے ساتھ کرتے ہیں ہم جو بھی بات کرتے ہیں
میں خاموش رہوں لیکن خاموش نہیں رہنے دیتے
مجھ سے میری باتیں یہ گل پات کرتے ہیں
کیسے اپنا بچپن بیتا کیسے جوبن گزر گیا
یہ تخمینہ ہم اکثر اوقات کرتے ہیں
اپنے آپ کو خود ہی توڑا جوڑا کرتے ہیں
یوں اپنی بے ترتیب مکمل ذات کرتے ہیں
بزم دنیا میں تو اکثر ہنستے بستے رہتے ہیں
اور تنہائی میں اشکوں کی برسات کرتے ہیں
عظمٰی ہاتھ اٹھائے نظر جھکائے دامن پھیلائے
اپنے رب سے کیا کیا مناجات کرتے ہیں