گذشتہ کے گلاب و کنول
مفتول ایمان کی لاش پر
سجا کر
لبوں پرزیست کا نوحہ
پریت کا گریہ بسا کر
وعدہ کی شام
اپنی عظمت میں
فرشتوں کے سب سجدے
آج ہی مصلوب کر دو
سب سے کہہ دو
ہم کونگے ہیں بہرے ہیں
کم کوسی کا مرض طاری ہے
اگلوں کا کیا
اپنے نام لھواتے ہیں
مورخ ہتھ بدھا خادم ہے
کل ہم پر ناز کرے گا
کہ ہم رفتہ پر نازاں ہیں