ستارے ماند ہیں چاند میں روشنی کم ہے
ہواؤں کی سرگوشی بھی آج کچھ نم ہے
کانٹوں کا زہر سہتا ہے پھول مسلسل
کسی اور میں اتنا دم ہے نہ خم ہے
ہر منظر میں نظارہ، ہر دریا کا کنارہ
ہر چہرے میں وہی اِک چہرہ ضم ہے
خوش نصیب ہے اے کافر تو بھی کہ
تیرا ہے گرچہ پتھر کا صنم ہے
لیکن کیا کم ہے ہمارا پتھر سا دل
پیوست جہاں اک تیرے نام کا غم ہے
فزوں تر ہے ترقی کا فسوں گرچہ
یہ تارو پودَ انساں زمیں پر ستم ہے
ادراک پنپتا ہے اک نئی چوٹ سہنے کے بعد
یہی انداز زیست ہے ، غم ہم قدم ہے