ستارے مل نہیں سکتے
Poet: Razi-ud-din Razi(Muskan) By: Abdul Waheed(Muskan), Haripurعجب دن تھے محبت کے
عجب دن تھے رفاقت کے
کبھی گر یاد آجائیں تو
پلکوں پر ستارے جھلملاتے ہیں
کسی کی یاد میں راتوں کو جاگنا معمول تھا اپنا
کبھی گر نیند آجاتی
تو ہم یہ سوچ لیتے تھے
ابھی تو وہ ہمارے واسطے رویا نہیں ہو گا
ابھی سویا نہیں ہو گا
ابھی ہم بھی نہیں روتے
ابھی ہم بھی نہیں سوتے
سو پھر ہم جاگتے تھے اور اُس کو یاد کرتے تھے
اکیلے بیٹھ کر ویرانِ دل آباد کرتے تھے
ہمارے سامنے تاروں کے جھرمٹ میں اکیلا چاند ہوتا تھا
جو اُس کے حسن گے آگے بہت ہی ماند ہوتا تھا
فلکپر رقص کرتے ان گنت روشن ستاروں کو
جو ہم ترتیب دیتے تھےتو اُس کا نام بنتا تھا
ہم اگلے روز جب ملتے
تو گزری رات کی ہر بےکلی کا زکر کرتے تھے
ہر اک قصہ سناتے تھے
کہاں، کس وقت، کس طرح سے دل دھڑکا بتاتے تھے
میں جب کہتا۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ جاناں
آج تو میں رات کو اک پل نہیں سویا
تو وہ خاموش رہتی تھی
پر اُس کی نیند میں ڈوبی ہوئی دو جھیل سی آنکھیں
اچانک بول اُٹھتی تھی
میں جب اس کو بتاتا تھا
کہ میں نے رات کو روشن ستاروں میں تمہارا نام دیکھا ہے
تو وہ کہتی “وحید تم جھوٹ کہتے ہو“
ستارے میں نے دیکھے تھے
اور ان روشن ستاروں میں تمہارا نام دیکھا تھا
عجیب معصوم سی لڑکی تھی
مجھے کہتی تھی “لگتا ہے اب اپنے ستارے مل ہی جائیں گے“
مگر اس کو خبر کیا تھی، کنارے مل نہیں سکتے
محبت کی کہانی میں، محبت کرنے والوں کے
ستارے مل نہیں سکتے
ہاں ستارے مل نہیں سکتے
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






