ستم اس نے برسوں اٹھایا کیا
مگر رسم الفت نبھایا کیا
ترے ہجر میں اے مہ اوج حسن
فلک مجھ کو برسوں رلایا کیا
نہ آنا تھا ان کو نہ آئے یہاں
میں ہرچند ان کو بلایا کیا
ہماری نہ اس نے سنی ایک بھی
عدو حال اپنا سنایا کیا
ہمیں واں کا جانا منع ہی رہا
عدو ان کے گھر روز آیا کیا
شب وصل وہ محو زینت رہے
میں آئینہ ان کو دکھایا کیا
پسیجا نہ دل ان کا ہائے غضب
میں آنکھوں سے دریا بہایا کیا
نہ مانے وہ آخر چلے ہی گئے
بہت ان کو شیداؔ منایا کیا