پرچھائیوں کا مسکن دل ناشاد پے ستم
بڑھتا گیا وہ داغ رستا رہا زخم
مقابل ہیں دل کے میرے گفتار کا ہے فن
شعروں میں انکے شامل الفاظوں کے ظلم
لازوال ہے سچائی ٹھکانہ ہے قتل گاہ میں
جاں آ گئی لبوں پے بتلایا ناں کوئی جرم
آشکار ہے حقیقت اس نامہ بر کا عنواں
اس وحشی جنوں کیسے رکھیں بھرم
بے مہری دنیا کی پہچان بن گیا
مرنے پے آنکھیں بھیگیں انکا ہے یہ کرم
جرم و سزا کے مالک رکتے ہیں ہر زمیں پر
ظلمت کے بت کدے کی کیسی ہے یہ رسم