زندگی کے بھنور میں ڈوب کر میں نے یہ جانا
سفینئہ آرزو متزلزل اور سوچ موج رواں ھے
یکبارگی کے عالم میں افق پہ جو دیکھا
وحشت میں ڈوبی آنکھوں سے برکھا رواں ھے
آشفتئہ دلی کے لیے کوئ تو ھو ساماں پیدا
خلش قلب سے آرزدہ اپنا کارواں ھے
امید بادباں ٹوٹ نہ جائے بادباراں سے
عہدوپیماں میں بھیگا ملاح رواںدواں ھے
سراب سا لگتا ھے اس شخص سے ناطہ “فائز"
قید صیاد میں بلبل مخلصی کا خواہش رواں ھے