سرخ ہونٹوں پہ تشنگی بری لگتی ہے
بڑی بڑی آنکھوں میں نمی بری لگتی ہے
تو جو تھا تو کوئی غم نہ تھا دنیا کا
اب چہرے پہ خوشی بھی بری لگتی ہے
اب اور انتظار نہیں ہو سکتا ہم سے
بن تیرے اکیلے زندگی بری لگتی ہے
ہم سے بھی تو اظہار کرو اقرار کرو
یوں دل میں رکھی محبت ہماری بری لگتی ہے
زبان ظاہر سے اقرار نہ کرے وہ لیکن
تنہائی میں اُس کی کمی بری لگتی ہے
کہیں کو نے میں بیٹھا جہاں مر نہ جائے
اپنےسینےسےلگالو،ہمیں تنہائی بری لگتی ہے