میری ذات کی محرومیاں
چھلک جاتی ہیں ذات سے
پتہ چل جاتا ہے سب اب
مختصر سی بات سے
چھپا چھپا کر رکھا تھا جو
سب کے سامنے عیاں ہوا
ہمیں بھی یاد نہیں تھا جو
کب تھاوہ اور کہاں ہوا
سرگوشیاں میری ذات کو
مکمل جڑوں تک ہیں کاٹتی
میرے وجود کو ہیں توڑتی
حصوں میں ہیں بانٹی
بہت بدنما نشان تھے
میری روح کے لباس پر
بہت زور کی تھی چوٹ
میرے وجود پر میرے احساس پر
ہم ٹوٹ کے بکھر رہے تھے
ذات کے اندر ہی ذات میں
ناقابل بیان داستان تھی
بات چھپی تھی بات میں
مگر پھر بھی جاری ہے سفر
کر رہی ہوں جس کو سر
یہ سرگوشیاں مگر عذاب ہیں
سفر میں مثل گرداب ہیں