چاہو جو میری خطاؤں کی سزا دو مجھ کو
پر خطا کیا ہے ذرا اتنا بتا دو مجھ کو
ہم نے چاہا تھا صنم تم کو تو آخر کیوں کر
ان وفاؤں کے صلے ایسی وفا دو مجھ کو
گونجتی رہتی ہے اب تک تیری کانوں میں ہنسی
تم کہاں ہو، کہیں سے تو صدا دو مجھ کو
اب بھی آتی ہیں مجھے یاد وہ پیاری باتیں
پھر سے اک بار وہی پیار جتا دو مجھ کو
ساری امیدوں کو ناکام ہوتے دیکھا ہے
اپنی امید کی اب تم ہی فنا دو مجھ کو
بھولنا تم کو ہمارے لئے ناممکن ہے
جو ہو سکے تو صنم تم ہی بھلا دو مجھ کو
اب اگر سوچ ہی لیا ہے جو قطع کا سائر
میں مر ہی جاؤں کوئی ایسی سزا دو مجھ کو