زندگی کے سفر میں کئی موڑ ہیں
اور کئی راستے
انگنت منزلیں
جس پہ انسان بے راہ روی کا شکار
روزِ اول سے ہے
سیکڑوں رہنما آئے تبلیغ کی
راہ حق کی مگر
راہگیروں کو دشواری در پیش ہے
ہر قدم پر یہاں
ایسی دشواری جس کا مداوا نہیں
انگنت خواہشیں اور سپنے لیے
دربدر ٹھوکریں کھاتا تھکتا نہیں ہے یہ انسان
جس کو خدا نے خلیفہ بنایا
خلافت عطا کی
مگر اس نوازش پہ کب مطمئن ہے
یہ انسان آخر
وہی اپنے سپنے لیے پھر رہا ہے
وہ سپنے کہ تعبیر جن کی نہ کوئی نہ کوئی حقیقت
فقط ایک دھن ہے
اسی دھن میں چلتا چلا جا رہا ہے
اسی راہ پر اور اسی منزلوں کی طرف
جس کا کوئی نشاں ہے نہ کوئی پتہ ہے