سفر جان تیرے دین کے خاطر
روز تیری گلی سے گزرتے ہیں
بستیوں کے دروازے بند، راستوں میں تنہا
جاناں، دل کے تارے چمکتے ہیں بجرتے ہیں
گلشنوں کا رنگ بہار میں خشک ہو گیا
اب پھول بھی دل کے زخموں پہ مرتے ہیں
کچھ لفھے اور بےدردی کا سفر تمام ہوا
یادوں کے دریا میں ہم بےتمنا گزرتے ہیں
دل کی دھڑکنیں بھی بےزار رہ گئیں
روح کے پھول بھی سردیوں میں مرتے ہیں
زندگی کی راہوں پہ خزاں کی ہوا چل رہی ہے
عشق کی پھولوں کی بستیاں ترے بعد بُجھتے ہیں
تیرے رونے کی آواز ہمیشہ کانوں میں ہے
جاناں، تیرے بغیر ہم یہاں مرتے ہیں