سفر عشق میں ہم دور تک نکل آئے
جانا کہیں اور تھا ہم کہیں اور نکل آئے
امید کی کرن تو رہی دستریں سے دور
چاندنی چھوڑ کر اندھیروں میں نکل آئے
کس کس کو سنائیں اب اپنی داستاں
جو ساتھ تھے ہمارے وہ آگے نکل آئے
ہم نہیں رہے ویسے پہلے سے آدمی
انداز آپ کے بھی بدلے بدلے نظر آئے