سمجھنے سے نہ سمجھانے سے ہو گا
مُعمّہ حل تِرے آنے سے ہو گا
ہتھیلی پر کوئی جاں لے کے آئے
نہِیں مُمکن- یہ دِیوانے سے ہو گا
نشہ مُجھ کو شرابوں سے نہیں ہے
گِلہ مئے سے نہ پیمانے سے ہوگا
مِرا دِل ہے کِسی بچّے کے جیسا
یہ خُوش ہو گا تو بہلانے سے ہو گا
نہِیں اغیار سے دل کو شِکایت
مگر زخمی تِرے طعنے ہو گا
یہاں پر کام جائز بھی ہو، جیبیں
اہل کاروں کی گرمانے سے ہو گا
وہ راضی ہو گا تیرا دوست ہے وہ
مگر چل کر تِرے جانے سے ہو گا
سمیٹا درد شِعروں کی شکل میں
نشہ سا ماورا گانے سے ہو گا
رشِید حل مانگتا ہے مسئلہ جو
بھلا لوگوں کو بتلانے سے ہو گا؟