ملتی ہے کیوں مجھ کو سزا سمجھ نہیں آتی
ہوئ کیا مجھ سے خطا سمجھ نہیں آتی
وہ خوشیاں جو بہت مانوس تھیں مجھ سے
رہتیں ہیں کیوں خفا سمجھ نہیں آتی
کبھی جو اپنے مجھے اپنے لگا کرتے تھے
ان کے بد لے رویوں کی وجہ سمجھ نہیں آتی
تپتی دھوپ اور کبھی ٹھنڈی ہوایں
ہم کو موسم کی یہ ادا سمجھ نہیں آتی
یوں تو ہر شام گھر لوٹ جاتے ہیں پرندے
مگر کچھ بھٹکوں کو کوئ راہ سمجھ نہیں آتی
وقت ہر زخم کو بھر رہا ہے لیکن
درد کی یہ انتہا سمجھ نہیں آتی
گناہ گار ہیں اتنے کہ سر نہیں اٹھتا
پر اس کی یہ عطا سمجھ نہیں آتی