سمندر دہر، جیون کو سفینہ جانتے ہیں
طوفانوں کے مقابِل ہو کہ جِینا جانتے ہیں
ااَلَم دنیا کے دنیا سے چھپا کر جی رہے ہیں
وہی شاید کہ جِینے کا قرینہ جانتے ہیں
ہماری روح تک جِنکو رسائی مِل گئی ہے
خدا جانے ہمیں وہ کیوں نگینہ جانتے ہیں
جو چشمِ دِل کے آئیننے سے دنیا دیکھتے ہیں
وہی دراصل جٰینے کا قرینہ جانتے ہیں
وہ اپنے دِل کی ساری باتیں مجھ سے کہتے ہیں
وہ میرے دِل کو رازوں کا دفینہ جانتے ہیں