سوال یہ نہیں کہ تم نے پکارا کیوں نہیں
سوال یہ ہے کہ تم کو اعتبار کیوں نہیں؟
کوئی تو ارد گرد نفرتوں کے جال بُن گیا
تمہاری آنکھ میں اب میرا انتظار کیوں نہیں؟
میری سانسیس تھم رہی ہیں! یاد مجھے دلائیے
خدا جانے تم ذہن پر سوار کیوں نہیں؟
کسے بتاؤں کہ اب انتظارِ موت ہے مجھے
کسے بتاؤں کہ آس پاس تیرا پیار کیوں نہیں؟
خیال، بس اک خیال، وہ جو تیرا خیال تھا
اب کسی بھی خیال پر نکھار کیوں نہیں؟