وہ جو کہتا رہا دن رات خرافات یہاں
اسکو ہر موڑ پر قدرت سے ملی مات یہاں
خوں کے دریا میں ڈبودینگے وہ جلا د سبھی
خون مظلوم سے کرتے تھے جو برسات یہاں
جو میرے گھر کو جلاتے تھے چراغآں کہہ کر
ہم جلا دینگے ان ہی سب کے محلات یہاں
خوف و دہشت کی علامت جو خدا تھے کل تک
مٹ گئے ان کی خدا ئی کے نشا نات یہا ں
جسکے لہجے میں تکبر کا زہر تھا کل تک
آج بے نا م و نشا ں ہے وہ ہی بد ذات یہا ں
جس نے دھوکے سے کیا وار ہمیشہ ہم پر
اس پہ ٹوٹیں گی مصیبت زدہ آفات یہا ں
جسکے پیغام صداقت سے عیا ں عزم و یقیں
وہ ہی بدلے گا وطن کے میرے حالات یہا ں
جسکی منزل ہے اجالوں کی نئی کا ہکشا ں
وہ مٹا دیگا اندھیروں کی علا مات یہا ں
جس نے ذہنوں کو نئی فکر شجا عت بخشی
وہ بدل ڈا لے گا فرسودہ خیا لات یہا ں
جا ن ودل رو ح و وفاء سب ہی نچھا ور تجھ پر
ہم نہیں سنتے ہیں قا ئد کے سواء بات یہا ں
ہم نے شعلو ں کو ہوا بن کے دھکیلا پیچھے
ہم مٹا تے ہیں غلط فہمی کے خدشا ت یہا ں
جو اجا لوں کو قتل کرنے چلا تھا گھر سے
اس پہ سورج نے لگا ئی ہے اشہر گھات یہاں