تمہیں آزاد کیا جاناں
عشق کے کچے دھاگوں سے
وفا کے جھوٹے بندھن سے
سبھی قسموں وعدوں سے
کئے تھے جو کبھی تم نے
ان چاندنی راتوں سے
جو گواہ تھیں محبت کی
ان لمحوں کی قید سے
جو تم نے سنگ گزارے تھے
خوش گمانی کے پھولوں سے
جو تم نے میرے
کاسۂ دل میں کھلائے تھے
تم آزاد پنچھی ہو
تمہیں قید میں رکھنا
مناسب ہے نہیں بالکل
مگر جانے سے پہلے
ذرا احسان کرجاؤ
میرے سینے میں
جو دل دھڑکتا ہے
تمہارے نام کا ہی
ورد کرتا ہے
دھڑکنے سے اسے
تم روکتے جاؤ
یہ جھیل سی آنکھیں
جو تمہارے خواب بنتی تھیں
ان میں ہجر کے تیرتے ابر کو
برسنے سے ذرا
تم روکتے جاؤ
سنو چاند کو بھی
تم سمجھاتے ہوئے جانا
اب وہ چاندنی کے پر
زمیں پر یوں نہ پھیلائے
میں دیکھوں گی اسے جب بھی
مجھے تم یاد آؤگے
ساری قسمیں سارے وعدے
میرا منہ چڑائیں گے
مگر یہ سب
تمہارے بس کی باتیں نہیں بالکل
تمہارے بس میں جو بھی تھا
وہ تو کردیا تم نے
سوغات ہجر کا اتنا حسیں
دے دیا تم نے